کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 210
گیا تو انھوں نے فرمایا: ’’إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُہٗ قِرَائَۃُ الْإِمَامِ،وَ إِذَا صَلّٰی وَحْدَہٗ فَلْیَقْرَأْ‘‘ ’’تم میں سے جب کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اسے امام کی قراء ت ہی کافی ہے اور جب وہ اکیلا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ قراءت کرے۔‘‘ مزید وہ بیان فرماتے ہیں: ’’وَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ‘‘[1] ’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما امام کے پیچھے قراء ت نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘ موطا امام محمد میں ایک اور طریق سے مروی ہے: ’’کَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ‘‘[2] ’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما امام کے پیچھے قراء ت نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘ سنن کبریٰ اور’’کتاب القراءۃ‘‘بیہقی میں ہے: ’’کَانَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ جَہَرَ أَوْ لَمْ یَجْہَرْ،وَ کَانَ رِجَالٌ أَئِمَّۃٌ یَقْرَأُوْنَ خَلْفَ الْإِمَامِ‘‘[3] ’’وہ امام کے پیچھے جہری و سری نماز میں قراء ت نہیں کرتے تھے،جب کہ دیگر ائمہ کرام(صحابہ میں سے اہلِ علم لوگ) امام کے پیچھے قراء ت کیا کرتے تھے۔‘‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ ا ثر مجمل ہے،جب کہ انہی سے مروی دوسرے آثار
[1] موطا مع الزرقاني(۱/۱۷۸)،دارقطني وموطأ إمام محمد۔ [2] موطأ إمام محمد(ص:۹۶) [3] بیہقي(۲/۱۶۱)،کتاب القراءة مترجم(ص:۱۶۶)