کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 19
3۔سنن نسائی ہی کی ہم معنی ایک روایت میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
((صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بَعْضَ الصَّلَاۃِ الَّتِيْ یُجْہَرُ فِیْہَا بِ القراءة فَقَالَ:لَا یَقْرَأَنَّ أَحَدٌ مِّنْکُمْ اِذَا جَہَرْتُ بِالقراءة اِلاَّ بِأُمِّ الْقُرْآن)) [1]
’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کوئی جہری نماز پڑھائی اور فرمایا:جب میں جہراً(بلند آواز سے) قراء ت کروں تو تم سورت فاتحہ کے سوا ہر گز کچھ نہ پڑھو۔‘‘
4۔ابو داود کی ایک دوسری روایت جو سنن الدارقطني،بیہقي،جزء القراءة بیہقي اور جزء القراءة بخاري میں بھی ہے،جس کی سند پر ایک راوی نافع بن محمود بن ربیع کے غیر معروف ہونے کی وجہ سے بعض محدثین کی طرف سے کلام کیا گیا ہے،لیکن وہ حسن الحدیث راوی ہے،اُس میں ہے:
((وَأَناَ أَقُوْلُ:مَا لِيْ یُنَازِعُنِيْ الْقُرْآن؟ فَلَا تَقْرَئُوْا بِشَیْیٍٔ مِّنَ الْقُرْآنِ إِذَا جَہَرْتُ إِلاَّ بِأُمِّ الْقُرْآنِ)) [2]
’’میں بھی کہوں کہ مجھے قرآن پڑھنے میں دِقت کیوں ہو رہی ہے ؟ جب میں جہراً قراء ت کروں تو تم ام القرآن(فاتحہ) کے سوا قرآن سے کچھ بھی نہ پڑھو۔‘‘
اِس روایت کی سند اگرچہ متکلم فیہ ہے،لیکن پھر بھی یہ پہلی حدیث کی تائید کے لیے مفیدِ مطلب ہے،کیوں کہ اس کا مفہوم پہلی حدیث میں بھی وارد ہوا ہے،جو
[1] صحیح النسائي۔
[2] بیھقی(۲؍۱۶۴)،دارقطني(۱؍۱؍۳۲۰) وقال:رجالہ کلہم ثقات،مشکاۃ(۱؍۲۷۰) وضعفہ الألباني۔