کتاب: سورۃ الفاتحہ فضیلت اور مقتدی کےلیے حکم - صفحہ 112
ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس پر دلیل کا لانا واجب ہے اور وہ کسی طرح بھی ایسی دلیل نہیں لا سکتا۔‘‘[1] قوامیسِ لغت میں سے’’لسان العرب‘‘نامی ضخیم کتاب میں بھی خداج کی وہ تشریح کی گئی ہے جو ہم امام خطابی،قرطبی،شوکانی،زرقانی،سیوطی اور نووی رحمہم اللہ کے حوالے سے ذکر کر چکے ہیں۔[2] ’’قاموس المحیط‘‘،’’تاج العروس شرح قاموس‘‘،’’اقرب الموارد‘‘،’’المعجم الوسیط‘‘اور’’مختار الصحاح‘‘وغیرہ بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔[3] ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذِ ادب ابو الفضل مولانا عبد الحفیظ بلیاوی نے’’مصباح اللغات‘‘میں بھی’’أَخْدَجَتِ الدَّابَۃُ‘‘کا معنی نا تمام بچہ گرا دینا ہی لکھا ہے[4]۔ اِس ساری لغوی تشریح کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ یہاں’’خِدَاج‘‘کا معنی نقصانِ ذاتی نہیں،بلکہ نقصان وصفی ہے تو پھر وہ اس کی مرضی ہے۔پھر ضعیف اور ناقابلِ استدلال روایات کو پیش کر کے صحیح احادیث سے ثابت شدہ حقیقت کو بدلنے اور نقصانِ اصلی یا ذاتی کو وصفی کا جامہ پہنانے سے کیا حاصل ہے؟[5]
[1] الاستذکار(۲؍۱۶۷،۱۶۸)،المرعاۃ(۱؍۵۵۸)،تفسیر ستاری(۱؍۳۳۱)،تحقیق الکلام(۱؍۱۸۷،۱۸۸۔۱؍۴۷،۴۷)،إمام الکلام(ص:۳۵۳)۔ [2] لسان العرب(۳؍۷۲،۷۳) [3] المعجم الوسیط(۱؍۱؍۲۱۹)،تفسیر ستاری(۱؍۳۳۲۔۳۳۳)،تحقیق الکلام(۱؍۴۷۔۵۲)،مختار الصحاح(ص:۷۰) [4] مصباح اللغات(ص:۱۹۳) [5] کما فعل صاحب أحسن الکلام(۲؍۵۰۔۵۱) ورد علیہ وعلی أمثالہ صاحب تحقیق الکلام(۱؍۴۹۔۵۲)،توضیح الکلام(۱؍۱۷۸۔۱۸۸)،تفسیر ستاری(۱؍۳۳۰۔۳۳۳)