کتاب: سنت کی روشنی اور بدعت کے اندھیرے کتاب وسنت کے آئینہ میں - صفحہ 93
ائمہ و اولیاء کی تقدیس اور انہیں ان کے مرتبوں سے اونچااٹھانا،اور پھررفتہ رفتہ ان کی عبادت تک پہنچ جاناوغیرہ، نیز دین میں غلو ہوتاہے ، مثلاًاللہ کی شریعت میں کسی چیز کا اضافہ کرنا، یا بے جا تشدد اور ناحق کسی کی تکفیر کرنا وغیرہ، اور غلو درحقیقت عقائد واعمال میں حد سے تجاوز کرنے کو کہا جاتا ہے، خواہ کسی چیز کی حد سے زیادہ تعریف ہو یا کسی چیز کی اس کے حق سے زیادہ مذمت۔[1] اللہ تعالیٰ نے غلو سے ڈرایا ہے، چنانچہ اہل کتاب سے فرمایا: ﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ﴾ [2] اے اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دین میں غلو کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے، چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إیاکم والغلو في الدین، فإنما أھلک من کان قبلکم الغلو في الدین‘‘[3]
[1] دیکھئے: اقتضاء الصراط المستقیم، ازشیخ الاسلام ابن تیمیہ، ۱/۲۸۹۔ [2] سورۃ النساء:۱۷۱۔ [3] سنن نسائی ،کتاب المناسک، باب التقاط الحصی، ۵/۲۶۸، وابن ماجہ، کتاب المناسک باب قدر حصی الرمي، ۲/۱۰۰۸، واحمد، ۱/۳۴۷، اس حدیث کی سند کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ نے ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ (۱/۲۸۹) میں صحیح قرار دیا ہے۔