کتاب: سنت کی روشنی اور بدعت کے اندھیرے کتاب وسنت کے آئینہ میں - صفحہ 66
’’امابعد:میں تمہیں اللہ کے تقویٰ، اس کے معاملہ میں اعتدال کی راہ اپنانے،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بعد جو کچھ بدعتیوں نے ایجاد کررکھا ہے اسے ترک کرنے کی وصیت کرتاہوں ‘‘[1] (۲) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’نہ کوئی قول بغیر عمل کے صحیح ہو سکتاہے، نہ کوئی قول اور عمل بغیر نیت کے، اور نہ ہی کوئی قول،عمل اور نیت بغیرسنت کے‘‘[2] (۳) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اہل کلام (اہل بدعت کی ایک قسم) کے بارے میں میرا فیصلہ یہ ہے کہ کھجور کی شاخ سے ان کی پٹائی کی جائے، انہیں اونٹ پر سوار کر کے علاقوں اور قبیلوں میں گھمایا جائے، اور اعلان کیا جائے کہ یہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر علم کلام سے جڑ جانے کا انجام ہے‘‘[3]
[1] سنن أبی داؤد، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ، ۴/۲۰۳، حدیث نمبر(۴۶۱۲)، نیز دیکھئے:صحیح سنن ابوداؤد، از علامہ البانی رحمۃاللہ علیہ ، ۳/۸۷۳۔ [2] شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ، از لالکائی، ۱/۶۳، حدیث نمبر(۱۸)۔ [3] اس کی تخریج ابو نعیم رحمۃاللہ علیہ نے ’’الحلیۃ ‘‘میں کی ہے، ۹/۱۱۶۔