کتاب: سنت کی روشنی اور بدعت کے اندھیرے کتاب وسنت کے آئینہ میں - صفحہ 150
نماز ادا کی، اسی طرح اس کے بعد بھی، یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ اور لوگوں کے گھر گھر میں اس نماز کا چرچا ہو گیا، پھر یونہی معاملہ چلتا رہا ، اور آج تک لوگ اسے سنت سمجھ کر اس پر عمل کرتے آرہے ہیں ۔‘‘[1] امام ابن وضاح اپنی سند سے نقل کرتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ سے کہا گیا کہ زیاد نمیری کہتا ہے: ’’شعبان کی پندرہویں شب کا ثواب لیلۃ القدر کی طرح ہے‘‘ ،تو انہوں نے فرمایا :’’اگر میں اسے یہ کہتے ہوئے سنتا اور میرے ہاتھ میں لاٹھی ہو تی تومیں اس کی پٹائی کرتا‘زیاد ایک قصہ گو شخص تھا‘‘[2] امام ابو شامہ شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’جہاں تک الفیہ (ہزارہ) کا مسئلہ ہے‘ تو شعبان کی پندرہویں شب کی نماز کا نام الفیہ (ہزارہ ) اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس نماز میں ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾کی تلاوت ایک ہزار مرتبہ ہوتی ہے، وہ اس طرح سے کہ یہ نماز سو (۱۰۰) رکعات کی ہے اور ہر رکعت میں سورۂ
[1] کتاب الحوادث والبدع، از امام طرطوشی، متوفی ۴۷۴؁ھ، ص:۲۶۶، نمبر (۲۳۸)۔ [2] کتاب فیہ ماجاء في البدع، از امام وضاح، ص:۱۰۱، نمبر (۱۲۰)، اور امام طرطوشی نے اسے امام ابن وضاح سے اپنی کتاب الحوادث والبدع میں روایت کیا ہے، ص:۲۶۳، نمبر (۲۳۵)، البتہ مذکورہ الفاظ مصنف عبد الرزاق کے ہیں ، دیکھئے : روایت نمبر (۷۹۲۸)۔