کتاب: سنت کی روشنی اور بدعت کے اندھیرے کتاب وسنت کے آئینہ میں - صفحہ 148
۴- شعبان کی پندرہویں شب میں جشن منانا:
امام محمد بن وضاح القرطبی اپنی سند سے بروایت عبد الرحمن بن زید بن اسلم نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:’’ میں نے اپنے مشائخ و فقہاء میں سے کسی کو نہ پایا کہ وہ شعبان کی پندرہویں شب کی طرف ذرا بھی نظر التفات کرتے ہوں ، اور نہ مکحول کی حدیث کی طرف ،[1]اور نہ ہی دوسری راتوں پر
[1] حدیث مکحول کی تخریج یوں ہے: ابن ابی عاصم، في السنۃ، حدیث نمبر (۵۱۲)، وابن حبان، ۱۲/۴۸۱، حدیث نمبر (۵۶۶۵)، والطبراني في الکبیر، ۲۰/۱۰۹، حدیث نمبر (۲۱۵)، وابونعیم في الحلیۃ، ۵/۱۹۱، و البیھقي في شعب الإیمان، ۵/۲۷۲، حدیث نمبر (۶۶۲۸)، بروایت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ مرفوعاً: ’’یطلع اللہ إلی خلقہ في لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ إلا لمشرکٍ أومشاحنٍ‘‘
’’پندرہویں شعبان کی شب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے ، سوائے مشرک اور باہم بغض و عداوت رکھنے والے کے‘‘۔
محد ث العصر علامہ البانی اپنی کتاب ’’ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘‘ میں فرماتے ہیں :’’ یہ حدیث صحیح ہے ، صحابہ کرام کی ایک جماعت سے مختلف سندوں سے مروی ہے، بعض سے بعض کو تقویت حاصل ہوتی ہے، وہ صحابہ یہ ہیں : معاذ بن جبل، ابوثعلبہ الخشنی، عبداللہ بن عمرو، ابو موسی اشعری، ابو ہریرہ ، ابو بکر صدیق، عوف بن مالک اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم ، پھر ان آٹھوں سندوں کی تخریج کی ہے اور ان کے رجال پر چار صفحات پر مشتمل طویل گفتگو فرمائی ہے۔ میں (مولف ) کہتا ہوں کہ اگر پندرہویں شعبان کی شب کی فضیلت میں امام البانی کے بقول یہ روایت صحیح ہے ، تب بھی اس سے اس شب میں خصوصیت کے ساتھ عبادتیں کرنا اور اس کے دن میں روزہ رکھناثابت نہیں ہوتا، سوائے اتنی مشروع عبادت کے جسے مسلمان سال کے دیگر ایام میں انجام دیتا ہے، کیونکہ عبادات توقیفی ہیں (بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہو سکتیں)