کتاب: سنت کی روشنی اور بدعت کے اندھیرے کتاب وسنت کے آئینہ میں - صفحہ 145
ثانیاً: اصحاب ایمان اور اہل علم میں سے کسی سے بھی یہ بات ثابت نہیں کہ کسی نے شب اسراء و معراج کو دیگر راتوں پر کسی بھی قسم کی کوئی فضیلت دی ہو، اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے صحابۂ کرام ، تابعین، اورتبع تابعین وغیرہم نے نہ تو اس شب میں کوئی جشن منایا، اور نہ ہی اسے کسی عبادت کے لئے خاص کیا، اور نہ ہی اس کا ذکر کیا، لہٰذا اگر اس شب میں تقریب منانے اور محفل معراج منعقد کرنے کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اپنے قول یا فعل سے اس کی رہنمائی ضرورفرمائی ہوتی، اور اگر فی الحقیقت ایسی کوئی بات ہو تی تو معروف ومشہور ہوتی ، اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرکے ہم تک ضرور پہونچاتے۔[1]
ثالثاً: اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت کے لئے اپنے دین کی تکمیل فرمادی ہے‘ اور ان پر اپنی نعمت تمام کردی ہے، ارشاد ربانی ہے:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾[2]
[1] دیکھئے:زاد المعاد ، از امام ابن القیم، ۱/۵۸، والتحذیر من البدع، از علامہ بن باز ، ص:۱۷۔
[2] سورۃ المائدۃ: ۳۔