کتاب: سنت کی روشنی اور بدعت کے اندھیرے کتاب وسنت کے آئینہ میں - صفحہ 102
کے ترک سے اللہ کی عبادت مقصود ہوگی تو ایسا کرنے سے وہ بدعتی شمارہوگا۔[1] ایسے امور میں ترک عمل بدعت قرار پانے کی دلیل ان تین افراد کا واقعہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق دریافت کرنے کے لئے ازواج مطہرات کے گھر آئے تھے، اور جب انہیں بتایا گیا تو انہوں نے اپنے لئے اتنی عبادت کو بہت کم سمجھا، اور کہا:’’کہاں ہم اور کہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیئے ہیں ، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا:’’میں توہمیشہ رات بھرنماز پڑھتا رہوں گا‘‘دوسرے نے کہا: ’’میں زندگی بھرروزہ رکھوں گاکبھی ناغہ نہ کروں گا‘‘، تیسرے نے کہا: ’’میں عورتوں سے الگ ہو جاؤں گا اور کبھی شادی ہی نہ کروں گا‘‘، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ((أنتم الذین قلتم کذا وکذا؟ أما واللّٰه إني لأخشاکم للہ، وأتقاکم لہ؛ لکني:أصوم وأفطر، وأصلي وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فلیس مني)) [2]
[1] دیکھئے: الاعتصام، ازامام شاطبی رحمۃاللہ علیہ ، ۱/۵۸۔ [2] متفق علیہ: صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب في النکاح،۶/۱۴۲، حدیث نمبر (۵۰۶۳)ومسلم، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ إلیہ ووجد مؤنتہ، ۲/۱۰۲۰، حدیث نمبر (۱۴۰۱)، بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ۔