کتاب: سچے خوابوں کے سنہرے واقعات - صفحہ 81
بعد ایک اور شخص نے اس کو تھاما، وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر ایک اور شخص نے تھاما وہ بھی چڑھ گیا، پھر ایک اور شخص نے تھاما تو وہ ٹوٹ گئی، پھر جُڑ گئی اور وہ بھی اوپر چلا گیا۔ یہ سن کرسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میرے والد آپ پر قربان! مجھے اس کی تعبیر کرنے دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا!آپ کر لیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: وہ بادل کا ٹکڑا اسلام ہے اور گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت اور نرمی مراد ہے۔ لوگ جو زیادہ یا کم لے رہے ہیں اس سے مراد یہی ہے کہ کوئی قرآن سے بہت زیادہ استفادہ کرتا ہے اورکوئی تھوڑا سا، اور وہ رسی جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے وہ دین حق ہے جس پر آپ ہیں، پھراللہ آپ کو اسی دین پر اپنے پاس بلالے گا۔ آپ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ اس کو تھامے گا وہ بھی چڑھ جائے گا، پھر ایک اور شخص تھامے گا اور وہ بھی چڑھ جائے گا، پھر ایک اور شخص تھامے گا تو کچھ خلل پڑے گا لیکن بالآخر وہ خلل بھی دُور ہو جائے گا۔ اور وہ بھی چڑھ جائے گا۔ یہ بیان کرکے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے: بتائیے، اللہ کے رسول! میں نے ٹھیک تعبیر کی یا غلط؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ تو ٹھیک تھی اور کچھ غلط۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! آپ واضح فرمادیجیے کہ میں نے کیا غلطی کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم نہ کھاؤ۔‘‘[1] سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ خواب کی تعبیروں کے بارے میں جانتے تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خطا شاید یہ ہو کہ انھیں تعبیر بتانے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تعبیر بتانے دیتے۔ گھی اور شہد سے انھوں نے قرآن کی حلاوت اور نرمی مراد لی، حالانکہ یہ دونوں شہد
[1] صحیح مسلم، حدیث: 5928۔