کتاب: سچے خوابوں کے سنہرے واقعات - صفحہ 51
اگر کوئی غلط خواب بیان کرتا ہے تو اس کی جو تعبیر کردی جائے وہی معاملہ پیش آئے گا۔ جیسا کہ پیچھے حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ ان دونوں قیدیوں پر یہ کیس چل رہا تھا کہ انھوں نے بادشاہ کے کھانے میں زہر ملایا ہے۔ جب تحقیق ہوئی تو ساقی بری ہوگیا اور دوسرے کو سولی دے دی گئی۔ جسے سزا ملنی تھی اس کا نام نہیں لیا تاکہ اس کے غم میں اضافہ نہ ہو۔ جہاں تک شاہی ساقی کا تعلق ہے شراب نچوڑنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بادشاہ کا مقرب ہوگا۔ جہاں تک پرندوں کے روٹیاں نوچنے کا تعلق ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پرندوں کی خوراک روٹیاں وغیرہ ہی ہوتی ہیں۔ اب اسے سولی دی جائے گی تو پرندے اس کی لاش کو خوراک بنائیں گے۔ (واللہ اعلم بالصواب) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر بیان کرنے میں تاخیر کیوں کی؟ اسی وقت اس کا جواب دے دینا چاہیے تھا۔ اس کی ایک توجیہ علمائے کرام نے یہ بیان کی ہے کہ وحیِ الٰہی کا انتظار تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے وعظ و نصیحت کو مؤثر اور پُر حکمت بنانا چاہتے تھے۔ تیسری وجہ جو مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ نے بیان کی ہے: انھوں نے قصداً (تاخیر)کی تھی تاکہ انھیں بتایا جائے میں کاہن اور نجومی نہیں ہوں، نہ میرا علم ان کی طرح ہے، میں تمھارے طریقے پر کاربند نہیں ہوں۔ میری راہ ان سے جدا ہے﴿ ذَلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ﴾’’یہ تو وہ علم ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے۔‘‘﴿إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ﴾’’جو کافر ہیں، اللہ پر ایمان نہیں لاتے، آخرت کے منکر ہیں میرا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ ان کے پاس جو ہدایت اور رہنمائی ہے وہ اللہ تعالیٰ