کتاب: سچے خوابوں کے سنہرے واقعات - صفحہ 44
بعض خواب معلق ہوتے ہیں۔ اگر یہ کام ہوگیا تو مصیبتیں ٹل جائیں گی نہ ہوا تو مصیبتیں آجائیں گی۔ایسی صورت میں بُری تعبیر نکالنے سے معاملہ بُرا اور اچھی تعبیرنکالنے سے معاملہ اچھا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جو آپ کا ہمدردیا عقلمند نہ ہو اس کو خواب نہیں بتانا چاہیے۔‘‘[1] قاضی سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ نے سورۂ یوسف کی تفسیر الکمال والجمال میں بیان کیا ہے: جب سیدنا یوسف علیہ السلام نے جیل کے دونوں ساتھیوں کو تعبیر بتادی۔ انھوں نے کہا: ہم نے تو مذاق کیا تھا۔ ہمیں تو ایسے خواب ہی نہیں آئے۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا: ﴿ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ ﴾’’تم دونوں نے جس چیز کے بارے میں پوچھا تھا، اس کا فیصلہ کردیا گیا ہے۔ (لہٰذا اب ایسا ہی ہوگا)۔‘‘ نیز تفسیر ابن کثیر میں بھی ہے: اگر کوئی جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، پھر اس کی تعبیر کردی جائے توویسا ہی ہوکر رہتا ہے۔[2] واللہ اعلم بالصواب! سیدنا یعقوب علیہ السلام نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو روکا تھا کہ اپنے بھائیوں کے سامنے یہ خواب بیان نہ کرنا مگر برادرانِ یوسف کو خواب کا پتہ چل گیا یا باپ کی اضافی محبت سے انھوں نے اندازہ لگالیا کہ والد ہمیں نظر انداز کرتا ہے۔ بلکہ یہ بات بھی منقول ہے کہ جب بھائی سازش کے تحت یوسف علیہ السلام کو لے گئے تو وہ انھیں مارتے تھے اور پوچھتے تھے کہ تمھیں کون سجدہ کررہا تھا؟ ہم تمھیں تمھارے خواب کا مزا چکھائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ﴾ ’’اور اسی طرح تجھے تیرا پروردگار برگزیدہ کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی (یا خوابوں
[1] معارف القرآن:5؍18۔ [2] تفسیر ابن کثیر: 3؍361۔