کتاب: سچے خوابوں کے سنہرے واقعات - صفحہ 38
’’حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی تقویٰ اختیار کرتا ہے اور صبر(کامظاہرہ) کرتا ہے تو بے شک اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کے اجرکو ضائع نہیں کرتا۔‘‘ ﴿ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴾ ’’بلاشبہ ان کے قصے میں اہل عقل و دانش کے لیے بہت بڑی عبرت ہے۔‘‘[1] کاش! اس قصے کو عبرت کی نگاہ سے دیکھا اور پڑھا جائے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے تذکرے کے حوالے سے ہم اپنی گزارشات تین خوابوں تک محدود رکھیں گے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے قصے سے نظر آتا ہے کہ اس دور میں خوابوں کی تعبیر کا علم بڑی عزت و شہرت کا باعث تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خاص فضل وکرم فرماتے ہوئے سیدنا یوسف علیہ السلام کو معجزے کے طورپر اس علم میں یدِ طولیٰ عطا کیا تھا۔ آپ علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا موجد بھی کہا گیا ہے۔ امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التعبیر کے چھٹے باب میں سیدنا یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر کیا ہے جبکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خواب کا ساتویں باب میں، حالانکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ قرآنی سورتوں کے لحاظ سے سورۂ یوسف پہلے آتی ہے، اس لیے ان کا ذکر پہلے کردیا گیا۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات مختلف سورتوں میں بیان کیے ہیں مگرکسی پیغمبر کے تذکرے میں بطورِ انعام یا بطورِ معجزہ خوابوں کی تعبیر کے علم کا ذکر نہیں کیا، صرف سیدنا یوسف علیہ السلام کے قصے میں فرمایا گیا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے والد گرامی سیدنا یعقوب علیہ السلام نے انھیں بتایا تھا کہ اللہ آپ کو یہ علم عنایت فرمائے گا، لہٰذا سیدنا یوسف علیہ السلام خود فرماتے ہیں: اللہ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم
[1] یوسف 7:12، 22، 23، 90، 111۔