کتاب: سچے خوابوں کے سنہرے واقعات - صفحہ 29
قربانی مطلوب ہے، لہٰذا فوراً سر تسلیم خم کردیا۔[1] سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کی رائے بھی لی کہ آیا وہ بھی اللہ کے حکم کے سامنے سر جھکاتا ہے یا نہیں؟ اسے کوئی تردد تونہیں۔ بیٹے کا امتحان لینابھی مقصود تھا۔ اللہ کے نبی چاہتے تو اس سے رائے لیے بغیر ہی اسے ذبح کرسکتے تھے۔ اور یوں حکمِ الٰہی کی بجاآوری ہوسکتی تھی۔ مگر اس صورت میں بیٹے کی آزمائش نہ ہوتی۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے اس سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى ﴾’’دیکھ لو تمھاری کیا رائے ہے؟‘‘ بیٹے کے دل میں ادنیٰ سا تردد بھی نہ ہوا۔ بیٹا خوب سمجھتا تھا کہ میرے والد اللہ کے نبی ہیں۔ ان کا خواب بھی وحی الٰہی ہے۔ بیٹے نے یہ نہیں کہا: اباجان! میں اس بارے میں ذرا سوچ کربتاتا ہوں بلکہ انھوں نے معاًبلاتأمل کہہ دیا: ﴿ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ﴾’’ ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کیجیے۔‘‘ اس سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بچپن ہی سے کتنے سمجھ دار تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ انھیں بھی نبوت سے سرفراز فرمانے والے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ذہن میں یہ جذبہ ڈال دیا کہ یہ حکمِ ربانی ہے اور مجھے بہرصورت اس کی تعمیل کرنی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ میرے والد گرامی کا خواب بھی وحی الٰہی ہے۔ چونکہ انبیائے کرام علیہم السلام کے خواب وحی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اپنے والد محترم سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اس طرح دلاسا دیا: ﴿سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴾’’اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘ اسی کے بارے میں اقبال رحمہ اللہ نے کہا ہے ؎
[1] تفسیر ابن کثیر، الصّٰفّٰت 106:37۔