کتاب: سچے خوابوں کے سنہرے واقعات - صفحہ 159
دومغربی آدمی ہیں۔ وہ نہایت متقی، درویش، سخی اور عفیف ہیں، اپنے حجرے ہی میں رہتے ہیں، ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے ہیں اور لوگوں سے کوئی میل جول نہیں رکھتے۔سب سے بے نیاز ہیں۔ سلطان نے سختی کے ساتھ انھیں حاضر کرنے کا حکم دیا اور پھر جونھی سلطان کے روبرو لائے گئے وہ فوراً پہچان گیا کہ مطلوبہ شرپسند یہی دونوں آدمی ہیں۔ سلطان نے انھیں بحیثیت مجرم شناخت کیا مگر رائے عامہ کا اصرار تھا کہ یہ بڑے درویش اور بے ضرر لوگ ہیں۔ سلطان انھیں ساتھ لے کر فوراً ان کے حجرے میں جا پہنچا۔ انھیں حجرے کے باہر کھڑا کردیا اور خود اندر چلا گیا۔ کہتے ہیں: وہاں سلطان کو ایک طاقچے پر قرآن حکیم کا ایک نسخہ ملا۔ کچھ پند و نصائح کی کتابیں ملیں۔ ایک طرف مال کا ڈھیر ملا، جسے وہ فقرائے مدینہ پر صرف کیا کرتے تھے۔ مگر سلطان تو کمرے میں کچھ اور تلاش کررہا تھا۔ آخر اس نے فرش پر بچھی ہوئی چٹائیاں اٹھوائیں اور فرش کا چپہ چپہ غور سے دیکھا۔ ایک سل اپنی جگہ سے اکھڑی ہوئی تھی اور اپنی داستان اپنی زبان سے سنا رہی تھی۔ یہ سل اٹھائی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے نیچے ایک سرنگ کا دہانہ ہے اور اس کا دوسرا سرا روضۂ اطہر کے اندر پہنچ رہا تھا۔ ایک روایت کے مطابق روضۂ اطہر میں نقب لگانے والے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے جسد مبارک تک پہنچ چکے تھے اور قبر سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں نظر آرہا تھا۔ بس پھر کیا تھا، دونوں درویش صورت اور شیطان سیرت مجرم فوراً دھر لیے گئے۔ تحقیق پر یہ راز کھلا کہ یہ دونوں یہودی تھے اور روضۂ اطہر سے بذریعہ سرنگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک کو نکال کر لے جانے کا منصوبہ بناکر آئے تھے۔ یہ لوگ دن بھر حجرے میں عبادت کرتے اور رات کے وقت سرنگ کھودنے کا کام کرتے اور مٹی کو مشکیزوں میں بھر کر