کتاب: سچے خوابوں کے سنہرے واقعات - صفحہ 155
کی۔ اسے کھولا تو بالوں کی بُنی ہوئی ایک رسی اور ایک خط نکلا۔ اس نے خط میں لکھا: میرے پاس جہادمیں چندہ دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ رسی ہے، یہ مجاہدین کے گھوڑوں کے کام آئے گی۔ اگلی صبح جب مجاہدین کا قافلہ سرحد کی طرف جانے لگا، ایک نوجوان میرے پاس آیا۔ اس نے کہا: میں ہر قیمت پر جہاد میں جانا چاہتا ہوں، مجھے چھوٹی عمر کا سمجھ کر واپس نہ کیجیے گا۔ رات جو عورت آپ کو ایک چھوٹی سی پوٹلی دے گئی تھی۔ وہ میری والدہ تھی۔ میرا والد اور میرے ماموں دونوں شہید ہوچکے ہیں۔ اس نے مجھے نصیحت کی ہے کہ دشمنوں کا مقابلہ کرنا، بھاگ نہ جانا۔ اپنے رب سے دعا کرنا کہ وہ تمھیں اپنے والد اور ماموں کے ساتھ جنت میں داخل کردے۔ پھر وہ اصرار کر کے کھانے کا انتظام کرنے لگا۔ کھانا پکاتے پکاتے وہ سوگیا۔ ایک شخص اس کا پتہ کرنے کے لیے گیا تو اسے سویا ہوا پایا مگر اسے بیدار نہ کیا بلکہ خود کھاناپکانے لگا۔ اچانک وہ سویا ہوا نوجوان ہنسنے لگا۔ پھر وہ ہنستے ہنستے ہی بیدار ہوگیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مجھے خواب آیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، میں نے وہاں سونے جواہرات کا ایک محل دیکھا۔ اس میں ایک نہایت خوبصورت عورت دیکھی، اس کا نام مرضیہ تھا۔ وہ مجھے کہنے لگی: ہاں ہاں! اے نوجوان! تم نیک نوجوان ہو میں تمھارے لیے ہی پیدا کی گئی ہوں۔ میری اورتمھاری ملاقات کل ظہر کے وقت ہوگی۔ میرے چہرے پر جو ہنسی بکھر گئی تھی وہ اس کی گفتگو ہی کی وجہ سے تھی۔ ابوقدامہ کہتے ہیں: میں نے اس سے کہا: تم نے اچھا خواب دیکھا ہے۔ پھر وہ نوجوان دشمن کے ساتھ جہاد کرنے لگا۔ شدید زخمی ہوگیا۔ مجھے یاد کرنے لگا۔ تلاش کرتے کرتے میں نے اُسے اس حال میں پایا کہ وہ شدید زخمی تھا۔ اس نے مجھے پہچان لیا۔ پھر اس نے مجھے وصیت کی کہ اگر میں شہید ہوجاؤںتو مجھے اسی مقام پر دفن