کتاب: سچے خوابوں کے سنہرے واقعات - صفحہ 140
میاں بیوی کو ایک نامی گرامی بچے کی صورت میں عطا کیا گیا۔ اس بچے کا نام انھوں نے محمد رکھا۔ شادی ہوئے ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ اسماعیل اپنی بیوی اور چھوٹے بچے کو داغِ مفارقت دے گئے اور وراثت میں بڑی دولت چھوڑ گئے۔والدہ انتہائی انہماک کے ساتھ اپنے بیٹے کی تربیت کرنے لگیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ایک جلیل القدر عالم دین بن کر افق عالم پر چمکے اور اپنے علم سے تاریک دنیا کو منور کرے۔ لیکن اس وقت ان کی حسرت و یاس کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب ان کے بچے کی مستقبل میں ترقی اور ان کی تمناؤں کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ بچپن ہی میں ان کا یہ بچہ اپنی بینائی کھو بیٹھا۔ اب نابینا ہونے کی وجہ سے یہ بچہ حصولِ تعلیم کے لیے علماء کے دروس میں شرکت سے معذور تھا اور حصول علم کے لیے دوسرے شہروں کا سفر بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ماں کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ آخر اس بچے کا کیا ہوگا؟ یہ عالم دین کس طرح بن سکے گا؟ بینائی کے بغیر علم کا حصول کیسے ممکن ہے؟ اس آرزو کے پورے ہونے کے لیے ان کے پاس بس ایک ہی ذریعہ تھا،اور وہ ذریعہ دعا کا تھا۔ چنانچہ وہ پورے اخلاص اور سچی نیت کے ساتھ دربارِ الٰہی میں گڑ گڑ اکر رونے لگیں اور اللہ رب العزت کے حضور دست سوال دراز کر کے بچے کی بینائی بحال ہونے کی دعائیں مانگنے لگیں۔ اللہ جانے وہ کب تک کتنے تسلسل کے ساتھ یہی دُعا مانگتی رہیں کہ ایک رات انھوں نے عجیب و غریب خواب دیکھا۔ انھیں خواب میں سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نظر آئے۔ وہ کہہ رہے تھے: ((یَا ہٰذِہِ قَدْ رَدَّ اللّٰہُ عَلَی ابْنِکِ بَصَرَہُ لِکَثْرَۃِ دُعَائِکِ)) ’’بی بی! تیری دعاؤں کی کثرت کے سبب اللہ تعالیٰ نے تیرے بیٹے کی بینائی بحال