کتاب: سچے خوابوں کے سنہرے واقعات - صفحہ 12
آئی ہوتی، اسے اس کی نیند میں (عارضی موت سے ہمکنارکرتا ہے) پھر وہ اس (روح) کو روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کردیا ہو، اوردوسری کو ایک مقرر وقت تک(واپس) بھیج دیتا ہے۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ نیند میں تمام نفوس کو اپنے پاس بلالیتا ہے اور جو نفس عرشِ الٰہی کے پاس جاکر بیدار ہوتا ہے تو وہ رؤیائے صادقہ ہے اور جو اس سے پہلے ہی بیدار ہوجاتا ہے وہ جھوٹا خواب ہے۔ ابن سینا کے نزدیک پریشان خواب جسمانی احساسات کی تاثیر سے رونما ہوتے ہیں۔ بعض ماہرین نے یہ رائے دی ہے کہ نیند کے دوران انسان کی روح باہر نکل کر مختلف مقامات کی سیر و تفریح کرتی ہے۔ ان کے نزدیک دورانِ سیاحت روح جو کچھ دیکھتی ہے اسی کا نام خواب ہے۔ یہ رائے مسلم مفکرین کی اس رائے کے موافق ہے کہ دورانِ نیند روح جسم سے نکل جاتی ہے۔ جدید ماہرین مسلم مفکرین کی طرح رؤیائے صادقہ اور خوابِ پریشاں میں فرق نہیں کرتے۔[2] تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں: ’’خواب کی حقیقت یہ ہے کہ نفسِ انسان جس وقت نیند یا بے ہوشی کے سبب ظاہر بدن کی تدبیر سے فارغ ہوجاتا ہے تواس کو اس کی قوت خیالیہ کی راہ سے کچھ صورتیں دکھائی دیتی ہیں، اسی کا نام خواب ہے۔‘‘[3] یہ تھے جدید سکالرز اور مسلم مفکرین کے خواب کے بارے میں خیالات کہ یہ کیوں آتے ہیں؟ اصل حقیقتِ حال بس اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
[1] الزمر42:39۔ [2] قرآن کریم اور علم النفس ازمحمد عثمان نجاتی، یہ صفحہ302تا 307 کا خلاصہ ہے ۔ [3] معارف القرآن: 5؍18۔