کتاب: سوئے منزل - صفحہ 95
بالآخر کیا ہوا؟ وہی ہوا جو ہوتا چلا آیا ہے، اب اسے کوئی ’’ہونی‘‘ کہے یا ’’انہونی‘‘، موت کہے یا وصال، پردہ پوشی کہے یا انتقال، حقیقت یہی ہے: اک مسافر تھا یاں آکے ٹھہرا ہوا اپنی منزل کو آخر روانہ ہوا ﴿ وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذَلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ﴾ [قٓ: ۱۹] ’’اور موت کی بیہوشی حقیقت میں طاری ہو گئی ۔اے انسان! یہی (وہ حالت) ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔‘‘ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے: ’’اللّٰہ مَّ أَعِنِّيْ عَلَی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ‘‘[1] ’’اے اللہ! موت کی سکرات میں میری مدد فرما۔‘‘ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے وقت) آپ کے پاس پانی سے بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی میں اپنا دستِ مبارک داخل کرتے اور اپنے چہرۂ انورپرپھیرتے ہوئے فرماتے: (( لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، إِنَّ لِلْمَوْتِ لَسَکَرَاتٍ )) ’’اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، یقینا موت کی سختیاں ہوتی ہیں-‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک کو اوپر اٹھایا اور فرمایا: (( فِيْ الرَّفِیْقِ الْأَعْلٰی )) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کر لی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستِ مبارک آہستہ آہستہ نیچے آگیا۔[2] موت کی آغوش میں : وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، وقتِ مقررہ آن پہنچا اور ڈاکٹروں نے تصدیق کردی
[1] المستدرک للحاکم (۲/ ۵۰۵) و صححہ الذہبي و الألباني. [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۴۴۹).