کتاب: سوئے منزل - صفحہ 94
زندگی تجھ سے امیدِ وفا کیا رکھوں جب مجھے چھوڑ گئے دوست پرانے میر ے علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ ہارون الرشید رحمہ اللہ نے مرض الموت میں ایک حکیمِ حاذق کو علاج کے لیے بلوایا تو جب اس کی گفتگو سن کر زندگی سے مایوسی ہو ئی تو اس نے یہ اشعار کہے: إِنَّ الطَّبِیْبَ بِطِبِّہِ و َدَوَائِہِ لاَ یَسْتَطِیْعُ دِفَاعَ نُحْبٍ قَدْ أَتَی مَا لِلطَّبِیْبِ یَمُوْتُ بِالدَّائِ الَّذِيْ قَدْ کَانَ أَبْرَأَ مِثْلَہُ فِیْمَا مَضَی مَاتَ الْمُدَاوَیٰ وَالْمُدَاوِيْ وَالَّذِيْ جَلَبَ الدَّوَائَ أَوْ بَاعَہُ أَوْ إِشْتَرَی ’’ماہرِ معالج اپنی طب و حکمت اور دوا کے ذریعے آئی ہو ئی اجل کو نہیں ٹال سکتا۔ اگر یہ حکیمِ حاذق اپنے فن میں اتنا ہی ماہر ہے تو پھرجس مرض کے بیماروں کایہ کامیاب علاج کیا کرتا تھا، اسی بیماری کے سبب خود موت کے منہ میں کیوں چلا گیا۔ دوا دینے والا اور لینے والا، لانے والا، خریدنے اور بیچنے والا سبھی کو موت آجاتی ہے۔‘‘[1] سبھی پاس کھڑے ہیں ، اقرباء بھی اور احباب بھی، جاں نثار بھی اور محبت کے دعویدار بھی، لیکن ملک الموت نے وقتِ مقررہ پر روح قبض کرلی۔ کیا کوئی بچا سکا؟ مال کام آیانہ ہی اولاد و احفاد نے ملک الموت کا راستہ روکا؟ احباب نے مزاحمت کی اور نہ ہی گروپ اور پارٹی نے چھڑایا؟ قصرِ شاہی کی مضبوط فصیلیں کام آئیں اور نہ ہی فوج و سپاہ نے کوئی زور دکھایا؟ یقینا کوئی بھی تدبیر و منصوبہ بندی تقدیر کونہ ٹال سکی۔ کفن بردوش صیادِ اجل پھرتا ہے گلشن میں نہ شاخِ گل پہ چُوکے گا نہ چھوڑے گا نشیمن میں
[1] التذکرۃ (ص: ۲۳).