کتاب: سوئے منزل - صفحہ 93
’’دیکھو جب جان حلق تک پہنچ جائے۔ اور لوگ کہنے لگیں (اس وقت) کون جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ اور اس (جاں بلب) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے۔ اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے۔ اس دن تجھ کو اپنے پروردگار کی طرف چلناہے۔‘‘ بس! اب بس!-جو ہونا تھا ہو گیا ہے۔ یہی انسان کی اخیر ہے۔ بہت جتن کیے، ہر قسم کا چار ہ کیا، ہر تدبیر اختیار کی، لیکن… لیکن… اسی کو کہتے ہیں : ’’دوشِ تقدیر پہ تدبیر کا جنازہ۔‘‘ عربی شاعر عنترۃ بن شداد نے کیا خوب کہا ہے: ع یَقُوْلُ لَکَ الطَّبِیْبُ دَوَاکَ عِنْدِيْ إِذَا مَا جَسَّ کَفَّکَ وَالذِّرَاعَا وَلَوْ عَلِمَ الطَّبِیْبُ دَوَائَ دَائٍ یَرُدُّ الْمَوْتَ مَا قَاسَی النِّزَاعَا ’’نبض شناس حکیمِ حاذق نبض ٹٹولنے کے بعد کہتا ہے کہ میرے پاس تیری بیماری کا علاج ہے۔ اگر واقعی اس کے پاس ایسی دوا ہوتی جو موت کو ٹال سکتی تو یہ خود نزع کی سختیوں سے دو چارنہ ہوتا۔‘‘ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ (83) وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ (84) وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ (85) فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ (86) تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴾ [الواقعۃ: ۸۳۔ ۸۷] ’’بھلا جب (روح) گلے میں آ پہنچتی ہے۔ اور تم اس وقت (کی حالت کو) دیکھا کرتے ہو۔ اور ہم اس (مرنے والے) سے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں ، لیکن تم کو نظر نہیں آتے۔ پس اگر تم کسی کے بس میں نہیں ہو۔ تو اگر سچے ہو تو روح کو پھیر کیوں نہیں لیتے؟)۔‘‘