کتاب: سوئے منزل - صفحہ 92
تَقُولُونَ عَلَى اللّٰہِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ ﴾[الأنعام: ۹۳] ’’اور کاش! تم ان ظالم (یعنی رب کے نا فرمان) لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لیے) ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں آج تمھیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لیے کہ تم اللہ پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے‘‘ (اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رلا دینے والی بد بختی اور سوئے خاتمہ جیسے انجامِ بدسے محفوظ رکھے)- آمین! نیکی ہے مثلِ نور، بدی مثلِ نار ہے جو چاہے کر قبول تجھے اختیار ہے وہ شئے ہے کونسی جو یہاں پائیدار ہے دنیائے بے ثبات میں کس کو قرار ہے علاماتِ موت: موت کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ ارے، ارے! ان کو کیا ہوا؟ ان کی تو سانس اکھڑ رہی ہے، ان کی آنکھیں تارے لگ گئی ہیں ، ان کی ناک ٹیڑھی ہو رہی ہے، ان کی نبض کو ٹٹو لیے، ان کے پاؤں توٹھنڈے ہیں ، ان کی پنڈلی پہ پنڈلی چڑھ گئی ہے۔ بھاگو حکیم کی طرف، کسی ڈاکٹر کو بلاؤ، انھیں ہسپتال لے چلو، یہ کرو… اور … وہ کرو۔ لاکھ جتن کیے، بالآخر ڈاکٹروں نے جواب دے دیا، حکیم بے بس ہیں ، اب کیا کیا جائے؟ کسی رُقیہ یا دم کرنے والے کو ہی بلوا بھیجو، اللہ کرے افاقہ ہوجائے۔ شاید… انھیں دم کرنے سے ہی فرق پڑ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ (26) وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ (27) وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ (28) وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (29) إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ ﴾[القیامۃ: ۲۶۔ ۳۰]