کتاب: سوئے منزل - صفحہ 91
دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ مسافرِ عدم کیا کر رہا تھا؟ اپنے رب کو راضی کررہا تھا، محوِ تلاوت و عبادت تھا، یا مشغول ذکر و دعا تھا یا کسی اور نیک کام میں مصروف تھا کہ پیامِ اجل آگیا تو دمِ واپسیں اسے یہ مژدۂ جاں فزا سنایا جائے گا:
﴿ يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (27) ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (29) وَادْخُلِي جَنَّتِي ﴾ [الفجر: ۲۷۔ ۳۰]
’’اے مطمئن جان! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے نیک انجام سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ میرے نیک بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘اور یہی حقیقی سعادت ہے اور ہر مومن کی دلی تمنا ہے۔
کہیں مجھ کو فرشتے وقتِ آخر اے نفس مطمئنہ! لینے آئے
برا خاتمہ اور سیاہ بختی:
اگر مبتلائے گناہ ہونے کی صورت میں یعنی فحش گانے گاتے ہوئے، فلمیں دیکھتے ہوئے، محفلِ رقص و سرود سے لطف اندوز ہوتے ہوئے یا شراب وکباب میں مست، غلط کاری یا بد کاری کی حالت میں یاکسی پر ظلم و زیادتی کرتے ہوئے، چوری و ڈکیتی کی واردات کے دوران میں ، یا کسی اور جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے موت نے آدبوچا؟ یا اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے کی حالت میں یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بے وفائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت میں بدعات و محدثات کا پرچار کرتے ہوئے وارنٹِ گرفتاری آگئے تو یقینا یہ رُلا دینے والی بد بختی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ