کتاب: سوئے منزل - صفحہ 81
اللّٰہِ لاَ بِیَدِ الْعَبْدِ‘‘[1] یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا: ﴿ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا﴾ سے واضح ہے کہ اسلام پر موت آنا ایک مسلمان کی سب سے بڑی تمنا اور آرزو ہے، لیکن (اسلام پر خاتمہ) بندے کے نہیں ، بلکہ اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘ کتنے ہی سعادت مند ایسے ہیں کہ دمِ واپسیں کلمۂ شہادت ان کا وردِ زبان ہوتا ہے اور اسی پر ان کی زندگی کا اختتام ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کو یہ سعادتیں نصیب کری۔ آمین! اور کتنے ہی سوختہ نصیب اور بدبخت ایسے بھی ہیں کہ کلمۂ توحید کی تلقین کرنے کے باوجود اُن کی زبان پر جاری نہیں ہوتا، بلکہ فحش گوئی، گالی گلوچ کرتے یا مال و زر کی خواہش کا اظہار کرتے کرتے ان کی جان نکل جاتی ہے۔ اللہ ہم سب کو ایسی سیاہ بختی اور شقاوت سے محفوظ رکھے۔ آمین! علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حسنِ خاتمہ کا تعلق زیادہ تر انسان کے باطنی احوال (عقائد و نظریات) تعلق باللہ اور اوامرِ الٰہی کی پابندی کے سا تھ ہے۔ [2] اور یہ بدیہی امر ہے کہ جو شخص عقیدۂ توحید پر پوری طرح قائم رہتا اور استقامت اختیار کرتا ہے اور اپنی تمام تر مشکلات کو حل کرنے والا، بگڑی بنانے والا، اور مصائب میں کام آنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتا ہے اور مشکل کے وقت اسی کو پکارنے کا عادی ہے، اس کی زبان پہ سکراتِ موت میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کا نام جاری ہونے کی توقع ہے۔ اور جوشخص مشکل اور پریشانی میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کبھی کسی کو پکارتا اور کبھی کسی کے نا م کی دہائی دیتا ہے، وہ ایسے وقت میں بھی ششدر اور حیران ہی رہتاہے۔
[1] الفوائد (ص: ۲۴۴). [2] جامع العلوم والحکم (۱/ ۵۷).