کتاب: سوئے منزل - صفحہ 80
’’ایسے موقعے پر جس شخص کے دل میں یہ دو نوں با تیں جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ وہ چیز عطا کر دیتاہے، جس کی وہ اس سے امید کرتا ہے اور جس چیز سے وہ خائف ہوتا اس سے اس کو محفوظ رکھتا ہے۔‘‘
حسنِ خاتمہ:
قارئینِ کرام! حسنِ خاتمہ بہت بڑی سعادت اور اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام اور خصوصی فضل و احسان ہے۔ ہرمسلمان کی دلی تمنا ہے کہ اس کی زندگی کا انجام بخیر ہو۔ اور یہی ہر مسلمان سے مطلوب ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ [آل عمران: ۱۰۲]
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔‘‘
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے میں آنے والے ساحرانِ فرعون کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب وہ موسی علیہ السلام کے معجزے کی صداقت کے قائل ہوکر ایمان لے آئے تو فرعون نے انھیں سخت سزا کی دھمکی دی تو اس وقت انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی تھی:
﴿ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ﴾ [الأعراف: ۱۲۶]
’’اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں حالتِ اسلام میں فوت کرنا۔‘‘
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا: ﴿ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ﴾ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’وَکَوْنُ الْوَفَاۃِ عَلَی الْإِسْلاَمِ أَجَلَّ غَایَاتِ الْعَبْدِ‘وَأَنَّ ذَلِکَ بِیَدِ