کتاب: سوئے منزل - صفحہ 79
بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ ﴾ [الأنعام: ۴۴] )) [1] ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ بندے کو گناہ ومعاصی پر ڈٹے رہنے کے با وجود اس کی چاہت کے مطابق سا مان ِدنیاعطا کر رہا ہے تو جان لیجیے یہ استدراج (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے) پھر آپ نے قرآن کریم کی مذکورہ آیت تلاوت فرمائی: ’’پھر جب انھوں نے اُس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی فراموش کر دیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جب اُن چیزوں سے جو ان کو دی گئی تھیں خوب خوش ہو گئے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کر رہ گئے‘‘۔‘‘ اہلِ ایمان کا نظریہ اور عقیدہ: دنیا دار اور مال و زر کے حریص لوگوں کے مقابلے میں اہلِ ایمان کا طرزِ عمل اور عقیدہ یہ ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کی مرض الموت میں اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی احوال پرسی کرتے ہوئے دریافت کیا: تم اپنے تئیں کیسے محسوس کر رہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا: میں اللہ کی رحمت کا امیدوار اور اپنے گناہوں سے خائف ہوں تو رسول اللہ نے فرمایا: (( لاَ تَجْتَمعَانِ فِيْ مِثْلِ ہَذَا الْمَوْطِنِ إِلاَّ أَعْطَاہُ اللّٰہ الَّذِيْ یَرْجُوْ وَآمَنَہُ مِنَ الَّذِيْ یَخَافُ مِنْہُ )) [2]
[1] مسند أحمد (۴/ ۱۴۵، رقم الحدیث: ۱۷۳۴۹) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو جید اور علامہ ارناؤط نے حسن کہا ہے. [2] صحیح ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۴۳۶).