کتاب: سوئے منزل - صفحہ 76
’’تم میں سے ہر شخص کو ایسی حالت میں موت آنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے والا ہو۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسنِ ظن (نیک گمان) کا مطلب یہ ہے کہ مردِ مومن اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کاربند رہتے ہوئے نیکیاں کمانے اور حتی المقدور آخرت کے لیے زادِ راہ جمع کرنے کی سعی و کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پر امید رہے اور یہ نظریہ رکھے کہ میرا رب رحیم و کریم میرے سا تھ رحم وکرم کا معاملہ کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسنِ ظن کا مطلب یہ نہیں کہ انسان رات دن اللہ تعالیٰ کی بغاوت اور نافرمانی کرے۔ کبائر کا ارتکاب کرے اور قانونِ الٰہی کی دھجیاں بکھیرتا رہے اور پھر یہ بھی امید رکھے کہ میرا رب مجھ سے باز پرس نہیں کرے گا اور فردوسِ اعلیٰ میں ابرار و اتقیا کے سا تھ میرا مقام ہو گا، کیوں کہ جس کا اپنے رب کے ساتھ سچا اور حقیقی تعلق ہوتا ہے اور اس کی رحمت کا صدقِ دل سے طلب گار ہو تا ہے، وہ کبھی اس کی نافرمانی اور حکم عدولی نہیں کرتا اور جب اس سے کوئی خطا سرزد ہو جاتی ہے تو اپنے رب ِرحیم و کریم سے معافی کا طلب گار ہوتا ہے۔ یہ تو کفار اور اللہ کے نافرمان لوگوں کا طرزِ عمل ہے کہ رب کی بغاوت اور حکم عدولی کے با وجود یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر ہم با طل پر ہوتے توہم پہ دنیا کی ریل پیل کیوں ہوتی؟ اور جس طرح ہمیں یہاں پہ عیش و آرام اور دولتِ دنیا میسر ہے اور اگر قیا مت آبھی گئی توہمیں یہ سب کچھ آخرت میں بھی ملے گا، یعنی ان کے ہاں سعادت مندی کا معیار دنیا کا جاہ و مال ہے۔ جیساکہ سورۃ الکہف میں باغ والے کا قصہ مذکور ہے: ﴿ وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا (35) وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَى رَبِّي لَأَجِدَنَّ