کتاب: سوئے منزل - صفحہ 75
اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت عقل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی کے ہا تھوں کھلونا بننے سے بچنا اور برے یاروں کے یارانے سے قطعی طور پر پرہیز کرنا، مشکلات اور ذ ہنی پریشانیوں سے بچنے کے لیے انتہائی کار آمد امور ہیں-
خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ:
اور جہاں تک خودکشی کرنے والے مسلمان کی نمازِ جنازہ کا تعلق ہے تو وہ ادا کی جائے گی، کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور زجر و توبیخ خود کشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ خود نہیں پڑھائی تھی، تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اگر کسی نے ایسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے محروم ہو جائے گا، لیکن آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس سے منع نہیں کیا تھا۔ لہٰذا جمہور علما کا یہی مسلک ہے کہ خود کشی کرنا کبیرہ گناہ ہے، لیکن اس سے کوئی مسلمان دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، اس لیے ایسے شخص کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا بھی جائز ہے اور جہاں تک حدیث پاک میں مذکور الفاظ (( خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا )) کا تعلق ہے تو باقی نصوص کی روشنی میں اس کا مفہوم جہنم میں ہمیشگی اور دوامِ مطلق نہیں ، بلکہ ایک لمبی مدت ہے جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔
عزیزانِ گرامی! مومن کو چاہیے کہ زندگی بھر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے اور اس کے عذاب اور ناراضی سے بچنے کی کوشش کرے اور دمِ واپسیں اس کی رحمت سے پر امید ہو۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین روز قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا:
(( لَایَمُوْتَنَّ أَحَدُکُمْ إِلاَّ وَہُوَ یُحْسِنُ الظَّنَّ بِا للَّہِ عَزَّوَجَلَّ )) [1]
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۷۴۱۲).