کتاب: سوئے منزل - صفحہ 67
إِذَا عَرَتْکَ بَلِیَّۃٌ فَاصْبِرْ لَہَا صَبْرَ الْکَرِیْمِ فَإِنَّہُ بِکَ أَعْلَمُ وَإِذَا شَکَوْتَ إِلَی ابْنِ آدَمَ إِنَّمَا تَشْکُو الرَّحِیْمَ إِلَی الَّذِيْ لاَ یَرْحَمُ ’’اے انسان! جب تمھیں کوئی بیماری یا پریشانی لا حق ہو تو اس پر صبر کر! اللہ تعالیٰ آپ کے احوال سے خوب واقف ہے۔ جب آپ کسی آدمی کے پاس اپنے دکھ اور بیماری کا شکوہ کرتے ہیں تو گویا کہ آپ ارحم الراحمین کا شکوہ اس (مجبور ولاچار) کے سامنے کر رہے ہیں جو آپ کی پریشانی دور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‘‘ مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے واضح ہوا کہ مسلمان کے لیے بیماری یا دکھ اور تکلیف اور آزمایشیں کفارۂ گناہ ہوتی ہیں یا پھر بلندیِ درجات کا باعث۔ اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: ’’لاَ بَأْسَ طُہُوْرٌ إِنْ شَآئَ اللّٰہ ‘‘ ’’گھبرائیے مت! ان شاء اللہ یہ بیماری آپ کو گناہوں سے پاک کر دے گی۔‘‘ بیماری یا مصیبت کی خواہش کرنا: بیماری سے اور پریشانی سے مسلمان کے گناہ معاف ہوتے اور درجات بلند ہوتے ہیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے بیماری یا مصیبت کا مطالبہ کرنا یا اس کی خواہش کرنا درست نہیں ، کیوں کہ ’’تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘ اور اس انمول نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ آمِنًا فِيْ سِرْبِہِ، مُعَافًی فِيْ جَسَدِہِ، عِنْدَہُ قُوْتُ یَوْمِہِ، فَکَأَنَّمَا حِیْزَتْ لَہُ الدُّنْیَا )) [1] ’’تم میں سے جوشخص اپنے گھر میں پر امن ماحول میں صبح کرے، اور
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۳۴۶) وحسنہ الألباني.