کتاب: سوئے منزل - صفحہ 64
شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس سے اٹھ کر یہ کا نا پھوسی، چہ مگوئیاں اور تبصرے شروع ہوجاتے ہیں ۔کیا معلوم! در پردہ یہ کیا کرتا رہا ہے؟ کیا پتا چلتا ہے جی! لوگ اوپر سے کچھ نظر آتے ہیں اور اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں- یعنی دعا کے بجائے مریض کی کردار کشی ہونے لگتی ہے اور اس کے اقربا و احباب کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ عزیزانِ گرامی! یہ سب جہالت کی باتیں ہیں ایسا تبصرہ شریعت میں جائز نہیں ، اس طرح کی باتیں مومنوں کے بارے میں حسنِ ظن کے منافی اور ایک مسلمان بھائی کی کردار کشی ہے، یہ غیبت کی بد ترین قسم ہے، جس سے شریعتِ اسلامی میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ بیماری کفارۂ گناہ ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لاَ یَزَالُ الْبَلاَئُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَۃِ فِيْ جَسَدِہِ وَ أَہْلِہِ وَمَالِہِ، حَتَّی یَلْقَی اللّٰہ وَ مَا عَلَیْہِ خَطِیْئَۃٌ )) [1] ’’مومن مرد و خواتین کی (کسی نہ کسی صورت میں ) جسمانی طور پر یا اہلِ خانہ کے لحاظ سے یا مالی اعتبار سے آزمایش ہوتی رہتی ہے، حتی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے (اس حال میں ) جا ملتاہے کہ اس کا کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا (یعنی اللہ تعالیٰ ان آزمایشوں کے ذریعے سے اس کے گناہ معاف کر دیتا) ہے۔‘‘ نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِذَا ابْتَلَی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ بِبَلاَئٍ فِيْ جَسَدِہِ، قَالَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ لِلْمَلَکِ: اُکْتُبْ لَہُ صَالِحَ عَمَلِہِ الَّذِيْ کَانَ یَعْمَلُ،
[1] صحیح الأدب المفرد، رقم الحدیث (۳۸۰).