کتاب: سوئے منزل - صفحہ 60
دارا رہا، نہ جم، نہ سکندر سا بادشاہ تختِ زمیں پہ سیکڑوں آئے چلے گئے اُم المومنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (( إِِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ )) [1] ’’اعمال کا دار و مدار ان کے خاتمے پر ہے۔‘‘ لوگ بھی دوقسم کے ہیں (یعنی نیک و بد)، راہیں بھی دو ہیں اور منزلیں بھی دو ہی ہیں- ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ ﴾ [الشوریٰ: ۷] یعنی آخرت میں دو ہی ٹھکانے ہیں جنت یا جہنم اور کوئی جس منزل کی راہ اختیار کرے گا وہی منزل اس کا مقدر ہوگی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ﴾[الجاثیۃ: ۲۱] ’’جو لوگ بُرے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور ان کی زندگی اور موت یکساں ہو گی؟ یہ جو دعوے کرتے ہیں کتنے بُرے ہیں !‘‘ مت کیا کر اتنے گناہ توبہ کی آس پر اے انسان! بے اعتبار شئے ہے موت نہ جانے کب آجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( مَنْ مَاتَ عَلَی شَیْیئٍ بَعَثَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ )) [2]
[1] صحیح ابن حبان (۲/ ۵۳). [2] صحیح الجامع للألباني، رقم الحدیث (۶۵۴۳).