کتاب: سوئے منزل - صفحہ 57
مَشَیْنَاھَا خُطًی کُتِبَتْ عَلَیْنَا وَمَنْ کُتِبَتْ عَلَیْہِ خُطًی مَشَاھاَ
وَأَٔرْزَاقٌ لَنَا مُتَفَرَّقَاتٌ فَمَنْ لَمْ تَأْتِہِ مِنَّا أَتَاہَا
وَمَنْ کُتِبَتْ مَنِیَّتُہُ بِأَرْضٍ فَلَیْسَ یَمُوْتُ فِيْ أَرْضٍ سِوَاہَا
’’ہم نے وہی قدم اٹھائے ہیں جو ہماری قسمت میں لکھے جا چکے ہیں اور جس کے مقدر میں جہاں قدم ٹکانا لکھا گیا ہے وہ وہاں جاکر ہی رہے گا۔ اور ہمارے رزق بھی زمین میں پھیلا دیے گئے ہیں ، ہم میں سے کوئی ان تک نہ بھی پہنچ سکا تو وہ رزق اس تک ضرور پہنچ کر رہے گا۔ اور جس شخص کی موت جس سر زمین میں لکھ دی گئی، اسے وہیں پر ہی موت آئے گی۔‘‘
موت کیا ہے؟
زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہورِ ترکیب
موت کیا ہے؟ انہی اجزا کا پریشان ہونا
جسم سے روح کے انفصال (جدا ہونے) کا نام موت ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’اَلْمَوْتُ: إِنْقِطَاعُ تَعَلُّقِ الرُّوْحِ بِالْبَدَنِ ظَاہِرًا وَ بَاطِنًا‘‘[1]
’’بدن سے روح کے تعلق کا ظاہری اور باطنی طور پر منقطع ہونے کا نام موت ہے۔‘‘
مدتِ حیات تمام ہوئی، سفرِ دنیا اختتام کو پہنچا، اعمالِ صالحہ کے لیے دی گئی مہلت ختم ہوگئی اور واپسی کا بلاوا آگیا۔ بس اب تک جو کرلیا سو کرلیا۔ امتحان کا ٹائم ختم ہوا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے۔ ارے! یہ کیا ہو گیا؟ ان کو کیا ہوا؟ ابھی تو صاحب یہ کر رہے تھے، ابھی تو یہ۔ یوں کہہ ر ہے تھے۔ اب انھیں کیا ہو گیا؟ روح قفصِ عنصری
[1] فتح الباري (۲/ ۶۷).