کتاب: سوئے منزل - صفحہ 56
أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴾ [لقمان: ۳۴] ’’ کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا۔ اور نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ اسے کونسی سر زمین پر موت آئے گی۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( إِذَا أَرَادَ اللّٰہ قَبْضَ عَبْدٍ بِأَرْضٍ جَعَل لَہ فِیْھَا حَاجَۃً )) [1] ’’اللہ تعالیٰ زمین کے جس خطے پر کسی شخص کی روح قبض کرنا چا ہتے ہیں ، تواسے وہاں پہ کوئی کام ڈال دیتے ہیں (تاکہ وقت مقررہ پر وہ اس جگہ موجود ہو)-‘‘ اور اگر انسان کا عقیدہ و عمل صحیح ہو تو وطن سے دور موت بھی باعثِ سعادت ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں ایک آدمی فوت ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور فرمایا: ’’اے کاش! یہ اپنی جائے پیدایش کے علاوہ کسی دوسرے مقام پر فوت ہوتا‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اس میں کیا حکمت تھی؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اِنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَاتَ فِيْ غَیْرِ مَوْلَدِہِ قِیْسَ لَہٗ مِنْ مَوْلَدِہِ إِليَ مُنْقَطَعِ أَثَرِہِ فِيْ الْجَنَّۃِ )) [2] ’’بے شک جب کوئی شخص اپنی جائے پیدایش کے علاوہ کسی دوسری جگہ میں فوت ہوتا ہے تو جنت میں اس کی پیدایشی جگہ سے وفات کی جگہ تک پیمایش کر کے اس کو اتنا رقبہ دیا جاتا ہے۔‘‘
[1] صحیح الجامع الصغیر، رقم الحدیث (۳۱۱). [2] سنن ابن ماجہ، مسند أحمد (۲/ ۱۷۷).