کتاب: سوئے منزل - صفحہ 55
خَارِجٌ: أَمَلُہ‘، وَہَذِہِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ اَلأَْعْرَاضُ فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا )) [1] ’’یہ (درمیان والی لکیر) انسان ہے، اور یہ (مربع لکیر) اس کی موت ہے جس نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، اور یہ لکیرجو باہر کو نکل رہی ہے، یہ اس کی امیدیں ہیں ، اور یہ درمیان والی لکیر کی دونوں جانب جو چھوٹی چھوٹی لکیریں ہیں یہ اس کو پیش آمنے والے عوارض اور پریشانیاں ہیں ، اگر وہ اس (پریشانی) سے بچ جائے تودوسری اسے دبوچ لیتی ہے، اور اگر وہ اس سے بچ جائے تو ایک اور پریشانی اسے آ گھیرتی ہے۔‘‘ لیکن تعجب تو اس بات پرہے کہ ع قدم سوئے مرقد، نظر سوئے دنیا کدھر دیکھتے ہو، کدھر جا رہے ہو؟ دل کے ارمان ابھی باقی تھے، خواہشات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھیں ، ابھی تو جی بھرکر اس جہانِ رنگ و بو کا تماشا بھی نہیں کیا تھا۔۔۔۔ کہ۔ آہ! حیف! در چشمِ زدن صحبتِ یار آخر شد روئے گل سیر ندیدم کہ بہار آخر شد با لآخر وہ وقت آہی گیا، جو اٹل ہے اور اس کا علم بھی صرف خالقِ کائنات ہی کو ہے کہ کسی کو کب؟ اور کہاں موت آئے گی، جوانی میں یا پیرانہ سالی میں ؟ دیس میں یا پردیس میں ؟ موت دیس میں یا پردیس میں : ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۴۱۷).