کتاب: سوئے منزل - صفحہ 48
ہم ایک روز یا ایک روز سے بھی کم رہے تھے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ كَذَلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ ﴾ [الروم: ۵۵] ’’اور جس روز قیامت برپا ہو گی گناہ گار قسمیں کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں ) ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے تھے اسی طرح وہ (رستے سے) الٹے جاتے تھے۔‘‘ ہماری اُمت کی اوسط عمریں : اس اُمت کے لوگوں کی عمریں پہلی اُمتوں کی نسبت ویسے بھی بہت کم اور مختصر ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَعْمَارُ أُمَّتِيْ مَا بَیْنَ السِّتِیْنَ إِلَی السَّبْعِیْنَ، وَأَقَلُّھُمْ مَن یَجُوزُ ذَلِکَ )) [1] ’’ میری امت کے لوگوں کی اوسط عمریں ساٹھ سے ستر سال تک ہیں ، اور بہت کم لوگ اس سے تجاوز کریں گے۔‘‘ فرض کیجیے! اگر کسی شخص کی عمر ستر (۷۰) برس ہے۔ اس میں سات گھنٹے یومیہ نیند و آرام کے لیے ہوں اور (۸) گھنٹے ڈیوٹی کے، (۲) گھنٹے آمد و رفت کے، ڈیڑھ گھنٹا تین وقت کی خور و نوش کے لیے، کم از کم آدھا گھنٹا غسل و قضائے حاجت کے لیے، ایک گھنٹا سستانے کے لیے، ایک گھنٹہ اہل و عیال اور دوست و احباب کے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے، اس طرح تقریباً (۲۲) گھنٹے یومیہ صرف ہوئے۔ اس حساب سے (۷۰) سالہ عمر میں سے (۶۶) برس اس مصروفیت میں گزر ے اور باقی تقریباً (۴)
[1] صحیح الجامع الصغیر، رقم الحدیث (۱۰۷۴).