کتاب: سوئے منزل - صفحہ 47
تشبیہ دی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر استراحت فرما رہے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر پر اس چٹائی کے نشانات پڑچکے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو میں نے اپنے ہاتھوں سے وہ نشانات صاف کرتے ہوئے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان! اگر آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو ہم آپ کے لیے چٹائی کے اوپر کوئی چیز (چادر یا بستر وغیرہ) بچھا دیا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَالِيْ وَلِلدُّنْیَا وَمَا أَنَا وَالدُّنْیَا إِنَّمَا أَنَا وَالدُّنْیَا کَرَاکِبٍ إِستَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا )) [1]
’’مجھے دنیا سے کیا غرض؟ دنیا میں میرا قیام تو اس مسافرکی طرح ہے جو کچھ دیر سستانے کی غرض سے کسی شجرِ سایہ دار کے نیچے رکا اور پھر اسے چھوڑا اور اپنی راہ لی۔‘‘
آئے، ٹھہرے اور روانہ ہوگئے زندگی کیا ہے سفر کی بات ہے
(حیدر علی جعفری)
اور یہ مختصر قیام ہے ہی کتنا؟ اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ رب العزت والجلال عمرِ طویل پانے والوں سے استفسار کریں گے کہ وہ دنیا میں کتنا عرصہ سکونت پذیر رہے؟ تو ان کا جواب ہوگا: ’’ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔‘‘ جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
﴿ قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ (112) قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ ﴾ [المؤمنون: ۱۱۲، ۱۱۳]
’’(اللہ تعالیٰ) پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے برس رہے؟ وہ کہیں گے کہ
[1] مسند أحمد (۱/ ۳۹۱) و مسند الطیالسي (۱/ ۲۲۱).