کتاب: سوئے منزل - صفحہ 45
’’ہر متنفس کا انجام موت ہی ہے، اور اس مرض کے علاج سے تمام اطباء عاجزہیں-‘‘
بقول مولانا علی محمد صمصام رحمہ اللہ (پنجابی):
نبضاں رہن حکیماں دے ہتھ پھڑیاں
گولی موت والی سینے وِچ ٹھُک جانی
جدوں چابی عمر دی مُک جانی
گھڑی چَلدی چَلدی رُک جانی
عزیزانِ گرامی! موت نہ بچوں کی کم عمری دیکھتی، نہ والدین کا بڑھاپا، نہ بیوہ کی جوانی دیکھتی، نہ کسی کی خانہ ویرانی دیکھتی، اور نہ ہی کسی کی مجبوری اور پریشانی دیکھتی ہے، بلکہ جب وقتِ مقررہ آجاتا ہے تو لمحہ بھر کے لیے بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔
افسوس جہاں سے دوست کیا کیا نہ گئے
اس باغ سے کیا کیا گلِ رعنا نہ گئے
تھا کونسا نخل جس نے دیکھی نہ خزاں
وہ کون سے گل کھلے جو مرجھا نہ گئے
موت کا وقت مقرر ہے:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ﴾ [الأعراف: ۳۴]
’’اور ہر ایک امت کے لیے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کر سکتے ہیں نہ جلدی۔‘‘
نیز ایک دوسری آیتِ کریمہ میں ہے: