کتاب: سوئے منزل - صفحہ 43
یعنی اگر دنیا میں کسی کو بقائے دوام ملتی تو سید الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوتی۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قانونِ الٰہی کے مطابق (اپنی دنیا کی عمر مبارک تریسٹھ برس) گزار کر رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے تو پھر اور کون ہے جو یہاں پہ ہمیشہ رہ سکتا ہے؟
کیونکہ زندگی موت کا پیش خیمہ ہے، جو بھی پیدا ہوا ہے اسے موت کی آغوش میں جانا ہے، گلستانِ زندگی میں جو پھول بھی کھلے گا بالآخر مرجھا جائے گا، یعنی جو یہاں پہ آئے گا، ضرور جائے گا۔ ع
یہ اقامت تجھے پیغامِ سفر دیتی ہے
زندگی موت کے آنے کی خبر دیتی ہے
سَبِیْلُ الْخَلْقِ کُلِّہِمْ فَنَائٌ فَمَا أَحَدٌ یَدُوْم لَہ‘ البَقَائُ
یُقَرِّبُنَا الصَبَاحُ إِلَی المُنَایَا وَیُدْنِیْنَا إِلَیْہِنَّ المَسَائُ
أَتَأمَلُ أَنْ تَعِیْشَ وَ أَيُّ غُصْنٍ عَلَی الْأَیَّامِ طَالَ لَہُ النَّمَائُ
’’جہانِ فانی کی تمام مخلوقات کا انجام فنا ہے، یہاں پر کسی کو بھی بقائے دوام نصیب نہیں- گردش لیل و نہار ہمیں موت سے قریب تر کیے جا رہی ہے۔ کیا آپ ہمیشہ زندہ رہنے کے متمنی ہیں ؟ جبکہ شاخ سرسبز ہمیشہ ترو تازہ نہیں رہتی۔‘‘
اور سچ ہے کہ: ع
حقیقت میں جگہ دنیا نہیں ہے دل لگانے کی
وفا کرتی نہیں یہ بے وفا سارے زمانے کی
نہیں ٹلتی مقررہے جو ساعت موت آنے کی
جگہ اس میں نہیں دم مارنے کی لب ہلانے کی