کتاب: سوئے منزل - صفحہ 41
کی نیند) سو سکا ہو۔‘‘ اک زندگی عمل کے لیے بھی نصیب ہو یہ زندگی تو نیک ارادوں میں کٹ گئی عزیزانِ من! یہ اٹھتے ہو ئے جنازے، شہر خموشاں کی یہ روز افزوں آبادی اور یہ اقرباء کے داغِ مفارقت، یہ بزم ِیاراں کی ویرانی ہمیں کیا خبر دیتی ہے؟ آخر یہ لوگ دولتِ دنیائے دوں ، خویش و اقارب، مناصب و جاہ اور خود تعمیر کردہ عالیشان قصور و محلات کو چھوڑ کر چپ سادھے شہر خموشاں کی طرف کیوں رواں دواں ہیں ؟ کیا ان کو اپنے اہل و عیال، مال و منال اور عالیشان بنگلوں اور محلات سے پیار نہیں تھا؟ یقینا ان کو بھی یہ سب کچھ عزیز تھا۔ لیکن بقول شاعر: ع یَشَائُ الْمَرْئُ فِيْ الْدُّنْیَا خُلُوْداً وَخُلْدُ الْمَرْئِ فِيْ الدُّنْیاَ مُحَالٌ نَزَلْنَا ہٰھُنَا ثُم ارْتَحَلْنَا کَذَا الْدُّنْیَا نُزُوْلٌ وَارْتِحَالٌ ’’انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا میں اقامت گزیں ہونا چاہتا ہے، لیکن یہاں (دارِ فناء میں ) کسی کو بقائے دوام ملنا امرِ محال ہے۔ ہم یہاں آکر رُکے اور پھربسوئے منزل روانہ ہوئے، دنیا اسی طرح چل چلاؤ کی جگہ ہے۔‘‘ گر لا کھ برس جئے تو پھر مرنا ہے پیمانۂ عمر ایک دن بھرنا ہے ہاں توشۂ آخرت مہیا کرلے غافل تجھے دنیا سے سفر کرنا ہے موت ایک اٹل حقیقت ہے: موت ایک اٹل حقیقت ہے، کسی کو اس سے مفر نہیں ، اس سے نہ شاہ بچے، نہ گدا، اور نہ صالحین اور نہ ہی انبیاء، حتی کہ موت اور ملک الموت کو بھی اس کا ذائقہ چکھنا ہے، جو بھی پیدا ہوا اسے مرناہے، اور اس سرائے فانی میں جو بھی آکر ٹھہرا، اسے لا محالہ کوچ کرنا ہی پڑے گا، بلکہ فلسفۂ زندگی بھی یہی ہے کہ موت برحق ہے۔ یہ قانونِ الٰہی ہے: