کتاب: سوئے منزل - صفحہ 39
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں ہم فردوسِ بریں کے راہی ہیں اور اپنے ارحم الراحمین خالق و مالک کے فضل و کرم اور رحمتِ واسعہ سے پر امید ہیں- ہم اپنے معبود و مسجود اللہ رب العالمین کی دید کے مشتاق اور فردوسِ اعلی میں رب ذوالجلال والاکرام کے وجہِ کریم کے دیدار کے متمنی ہیں- اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا لَذَّۃَ النَّظْرِ إِلٰی وَجْہِکَ الْکَرِیْمِ فِيْ الْفِرْدَوْسِ الْأَعْلَیٰ وَالنَّعِیْمِ الْمُقِیْمِ۔ آمِیْنَ 5 ﴿ النَّذِيرُ ﴾ سے مراد بیماری ہے۔ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اَلْحُمَّی ہِيَ بَرِیْدُ الْمَوْتِ‘‘ ’’بخار موت کا قاصد ہے۔‘‘ 6 ﴿ النَّذِيرُ ﴾ سے مراد عقل کا کامل ہونا ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’قَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ اللّٰہُ لَہ عَقْلاً‘‘ ’’جسے اللہ تعالیٰ نے عقل عطا کر دی (اپنے سود و زیاں کو سمجھنے کی توفیق دی) وہ کا میاب ہو گیا۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَعْذَرَ اللّٰہُ إِلَی امْرِیئٍ أَخَّرَ أَجَلَہُ حَتّٰی بَلَّغَہُ سِتِّیْنَ سَنَۃً )) [1] ’’ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے کوئی عذ ر باقی نہیں چھوڑا، جس کی موت کو اس نے مؤخر کرکے اسے ساٹھ سال کی عمر کو پہنچادیا۔‘‘ علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے: ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے سا ٹھ سال عمر عطا کی، اس کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا، کیوں کہ زیادہ تر اموات اسی عمر میں واقع ہوتی ہیں ، یہ
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۴۱۹).