کتاب: سوئے منزل - صفحہ 38
کرنے والا) بھی آ چکا تھا۔‘‘
﴿ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ﴾ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں :
1 ﴿ النَّذِيرُ ﴾ سے مراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں- یعنی آپ مبشر (اللہ تعالیٰ کے انعامات کی خوش خبری سنانے والے) بھی ہیں اور نذیر بھی ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب و سزا سے ڈرانے والے)-
2 ﴿ النَّذِيرُ ﴾ سے مراد قرآنِ کریم ہے، کیوں کہ قرآنِ کریم کتاب نصیحت ہے جو انسان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرتی اور سود و زیاں سے آگاہ کرتی ہے۔
3 ﴿ النَّذِيرُ ﴾ سے مراد بڑھاپا ہے، کیوں کہ بالوں میں چاندی کا اتر آنا قرب منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، عکرمہ، سفیان ثوری اور وکیع رحمہم اللہ کا ہے۔
عبد العزیز بن مروان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جو شخص تین چیزوں سے نصیحت حاصل نہیں کرتا اسے کوئی نصیحت فائدہ نہیں دیتی: 1.اسلام۔ 2.قرآن-3.بڑھاپا۔
امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اُدھیڑ عمر لوگوں کو نصیحت کے لیے بڑھاپے کا نور (بالوں کی سفیدی) ہی کافی ہے جو اُن کے لیے واپسی کی راہ کو روشن کر رہا ہے۔
4 ﴿ النَّذِيرُ ﴾ سے مراد اقربا کی موت ہے۔ بدوِ شعور سے شمار کریں تو یہ بہت لمبی فہرست ہے۔
ہمارے کتنے ہی عزیز و اقارب، جو کاروانِ حیات میں ہمارے شریکِ سفر تھے، داغِ جدائی دے گئے، ہمارا سا تھ چھوڑ گئے، دنیائے فانی سے منہ موڑ گئے۔ (وہ جان سے بھی پیارے اقرباء جن کی دید کو دیدے ترس گئے ہیں- اب ہم اپنے رحمان و رحیم رب کریم کی رحمت پہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ ان لمبی جدائیوں کے بعد۔إن شاء اللّٰہ ۔ اب جنت الفردوس میں ملاقات ہو گی) کیونکہ ہم بھی اسی قطار میں کھڑے ہیں- ع