کتاب: سوئے منزل - صفحہ 36
کا بندہ ہے اور اس نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ’’فَلْیَعْلَمْ أَنَّہٗ مَوْقَوْفٌ وَ أَنَّہٗ مَسْئُوْلٌ‘‘ اسے بہ خوبی معلوم ہونا چاہیے کہ اسے دربارِ الٰہی میں پیش کیا جائے گا اور اس سے باز پرس ہوگی۔ لہٰذا ہر شخص کو سوالات کے جوابات تیار رکھنے چاہییں- تو اس نے پوچھا: (ساٹھ سال تو غفلت میں گزر گئے ’’فَمَا الْحِیْلَۃ؟‘‘ اس کے لیے چارۂ کار کیا ہے؟ توجواب دیا: ’’یَسِیْرَۃٌ، تُحْسِنُ فِیْمَا بَقِيَ یُغْفَرُ لَکَ مَا مَضَیٰ فَإِنَّکَ إِنْ أَسَأْتَ فِیْمَا بَقِيَ أُخِذْتَ بِمَا مَضَی وَمَا بَقِيَ‘‘[1] ’’بہت آسان ہے، باقی زندگی میں نیک اعمال کرو گے تو ان کی و جہ سے آپ کی گذشتہ خطائیں معاف کر دی جائیں گی اور اگر آپ نے بقیہ عمر بھی اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی میں گزار دی تو پھر پہلے اور پچھلے تمام گناہوں کی سزا ملے گی۔‘‘ ماہ و سال کا تانا بانا سانسوں کا ہے آنا جانا یہ نہ دیکھو کتنے گزرے یہ بھی سوچو کیسے گزرے؟ کیا کچھ کھویا کیا کچھ پایا لمحوں کا کیا قرض چکایا؟ أَعْجَبُ شَیْیئٍ لَّوْ تَأَمَّلْتَ أَنَّہَا مَنَازِلُ تُطْوَيَ وَالْمُسَافِرُ قَاعِدٌ ’’اگر آپ غور کریں تو یہ بات تعجب انگیز ہے کہ منازل طے ہو رہی ہیں اور مسافر بیٹھا ہوا ہے۔‘‘ اے مسافرانِ عدم! جسے اپنی بے بضاعتی اور تہی دامنی کا احساس بھی ہو اور درازیِ سفر اور دوریِ منزل کا شعور بھی ہو اور پھر وہ تسویف و ٹال مٹول سے کام لے اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہے، تواسے کیا کہنا چاہیے، غافل و کا ہل یا بے حس اور نا عاقبت اندیش یا کچھ اور ؟!
[1] لطائف المعارف (۱/ ۱۰۸).