کتاب: سوئے منزل - صفحہ 35
سب ذرا ذرا، حسنات بھی یاد ہیں اور سیئات کا بھی علم ہے۔ ماضی کی تمام تلخ و شیریں یادیں ہر انسان کے لوحِ دماغ پر مرتسم ہیں اور حافظے میں محفوظ ہیں- ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ (14) وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ ﴾[القیامۃ: ۱۴۔ ۱۵] ’’بلکہ انسان اپنے بارے میں خود آگاہ ہے، اگرچہ عذر و معذرت کرتا رہے۔‘‘ اپنے ضمیر کی عدالت میں ضرور جایا کرو کیوں کہ وہاں کبھی غلط فیصلے نہیں ہوتے اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’حَاسِبُوْا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا، وَزِنُوْہَا قَبْلَ أَنْ تُوْزَنُوْا‘‘[1] یعنی ’’تم اپنا محاسبہ خود ہی کرلو اس سے پہلے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے، اور اپنا وزن خود ہی کر لو (کہ آپ کتنے پانی میں ہیں ؟) اس سے قبل کہ تمھیں تولا جائے۔‘‘ حاصلِ زندگی حسرتوں کے سوا کچھ بھی نہیں یہ کیا نہیں وہ ہوا نہیں یہ ملا نہیں وہ رہا نہیں نصیحت: ایک مرتبہ حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے وقت اس سے پوچھا: ’’کَمْ أَتَیَ عَلَیْکَ‘‘ آپ کی عمر کتنی ہو چکی ہے؟ تواس نے جواب دیا: ’’سِتُّونَ سَنَۃً‘‘ سا ٹھ سال کا ہو چکا ہوں- تو انھوں نے فرمایا: ’’(ذرا سوچیے!) آپ ساٹھ (۶۰) سال سے اپنے رب کی طرف جانے کے لیے رواں دواں ہیں ، اب تو آپ منزل پر پہنچنے ہی والے ہیں- تو اس آدمی نے ان کی بات سن کر کہا: ’’إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘ توحضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا: (اس کا مفہوم جانتے ہو؟) اس کا مطلب ہے کہ جس کو یہ معلوم ہے کہ وہ اللہ
[1] إغاثۃ اللّٰہ فان (ص: ۹۴).