کتاب: سوئے منزل - صفحہ 34
شکر ادا کر رہے ہیں یا کہ ان نعمتوں کی نا قدری کرکے احسان فراموشی اور کفرانِ نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں ؟ اللّٰہ مَّ ارْزُقْنَا شُکْرَ نِعْمَتِک َ وَحُسْنَ عِبَادَتِکَ۔ آمین! ہے مجھ پر تیرا کرم بے مثال و بے پایاں یہ حق ہے کہ مجھ سے کبھی تیرا حق ادا نہ ہوا آئیے! اپنے من سے پوچھیں اور دل کو ٹٹو لیں کہ ہم نے اپنے فرائض کس حدتک ادا کیے؟ اور اپنی تخلیق کا مقصد کہاں تک پورا کیا ہے؟ اس دارالعمل میں ہم نے کیا محنت کی ہے جس کے اجرو ثواب کی توقع اور امید رکھیں ؟ ع تو اس دارالعمل سے گر تہی دامن چلا عاجز تیری جانب پھر اے بے ساز و ساماں ! کون دیکھے گا؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾ [الحشر: ۱۸] ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو! ہرشخص یہ غور کرے کہ اس نے کل (قیامت) کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو، یقینا اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے خوب با خبر ہے۔‘‘ یقینا ہمارا دل گو اہی دے گا کہ در پیش سفر دراز ہے اور ساماں کچھ نہیں اس لیے کہ ’’صَاحِبُ البَیْتِ أَدْرَی بِمَا فِیہِ‘‘ صاحبِ خانہ درونِ خانہ سے خوب آگاہ ہوتا ہے۔ بدوِ شعور سے لے کر ہر انسان کو اپنے اعمال کا بہ خوبی علم ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے؟ اس نے جو کچھ کیا؟ کب کیا؟ اور کہاں پر کیا؟ اسے یاد ہے