کتاب: سوئے منزل - صفحہ 30
عزیزانِ گرامیِ منزلت! کوئی بھی بات اس وقت تک بے اثر رہتی اور صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے، جب تک اسے توجہ اور نیک نیتی کے ساتھ سن کر دل میں جگہ نہ دی جائے اور پھر اس پر غور و فکر نہ کیا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ ﴾[قٓ: ۳۷] ’’جو شخص دل (آگاہ) رکھتا ہے یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے، اس کے لیے اس میں نصیحت ہے۔‘‘ آیتِ مبارکہ میں تین تاکیدیں لائی گئی ہیں : 1 ﴿ إِنَّ ﴾ حرفِ تاکید ہے۔ 2 ﴿ فِي ذَلِكَ ﴾ جارو مجرور مقدم ہے، جو تاکید کا فائدہ دیتا ہے۔ 3 ﴿ لَذِكْرَى ﴾ میں لام تا کید کے لیے ہے۔ اس قدر پُرزور اسلوب اور مؤکد کلام کا مطلب ہے کہ کامل توجہ سے سننے اور غور و تدبر کے بغیر تو کتابِ نصیحت (قرآن کریم) سے بھی استفادہ ممکن نہیں ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ کبھی ہم نے سوچا کہ ہم دنیا میں کیوں آئے؟ کبھی ہم نے اس آیتِ کریمہ پہ غور و تدبرکیا؟: ﴿ أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ﴾ [المؤمنون: ۱۱۵] ’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟‘‘ کیا مقصود زیست یہی ہے کہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست؟‘‘ کیا ہمیں صرف خور و نو ش، طنز و مزاح، ہنسی مذاق، کھیل کود، رقص و سرود، دولتِ دنیا سمیٹنے اور جاگیریں بنانے، کوٹھیاں اور بنگلے سجانے، فخر و مباہات کرنے یا