کتاب: سوئے منزل - صفحہ 299
’’مجھے تعجب ہے ایسے نوجوان کے جسم اور صحت پر جوکہ فجر تک سویا رہتا ہے، کیوں کہ رات کی تاریکی چھاجانے پر موت کے اچانک حملے سے وہ محفوظ نہیں ہوتا، کتنے ہی لوگ قبر کے گڑھے کی طرف منتقل کیے جا چکے ہیں جہاں ان کے اعمال ہی ان کا بستر ہیں ، اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کی اچانک پکڑ کی گئی، جنھوں نے رات تکبر اور فخر کی حالت میں گزاری تھی، موت نے انھیں غفلت کی حالت میں آ دبوچا، اور وہ حشر تک حسرت وندامت ساتھ لیے دنیا سے چل بسے۔‘‘[1]
(۲)
إِلَی کَمْ أَنْتَ فِيْ بَحْرِ الْخَطَایَا تُبَارِزُ مَنْ یَّرَاکَ وَلَا تَرَاہُ
وَسَمْتُکَ سَمْتُ ذِيْ وَرَعٍ وَ دِیْنٍ وَفِعْلُکَ فِعْلُ مُتِّبِعٍ ہَوَاہُ
فَیَا مَنْ بَاتَ یَخْلُو بِالْمَعَاصِيْ عَصَیْتَ وَ أَنْتَ لَمْ تَطْلُبْ رِضَاہُ
أَتَطْمَعُ أَنْ تَنَالَ الْعَفْوَ مِمَّنْ عَصَیْتَ وَ أَنْتَ لَمْ تَطْلُبْ رِضَاہُ
أَتَفْرَحُ بِالذُّنُوْبِ وَ بِالْخَطَایَا وَ تَنْسَاہُ وَلَا أَحَدٌ سِوَاہُ
فَتُبْ قَبْلَ الْمَمَاتِ وَ قَبْلَ یَوْمٍ یُلَاقِيْ الْعَبْدُ مَا کَسَبَتْ یَدَاہُ
’’ تو کب تک بحرِ عصیاں میں غوطہ زنی کرتے ہوئے اس (علیم و خبیر) کو للکارتا رہے گا جو تجھے دیکھ رہا ہے، لیکن خود تیری نگا ہوں سے او جھل ہے۔ تیری وضع قطع(روپ) تو دین دار اور اہلِ ورع و تقویٰ جیسی ہے، لیکن تیرا کردار (کرتوت) نفسانی خو اہشات کے پیروکاروں جیسے ہیں- اے (غافل!) جو رات کی خلوتوں میں گناہ و معاصی میں مبتلا رہا، تو نے (اپنے رب کی) حکم عدولی تو کی ہے، لیکن اس کی رضا جوئی کے لیے کوشش
[1] التھجد و قیام اللیل لابن أبي الدنیا (ص: ۳۳).