کتاب: سوئے منزل - صفحہ 29
إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ (20) فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ (21) فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ (22) قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ (23) كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ (24)﴾ [الحاقۃ: ۱۹ تا ۲۴]
’’جس شخص کو(اعمال) نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ (دوسروں سے) کہے گا کہ لیجیے میرا اعمال نامہ پڑھیے۔ مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب (کتاب) ضرور ملے گا۔ پس وہ (شخص) من پسند عیش میں ہو گا۔ (یعنی) اونچے (اونچے محلوں کے) باغ میں- جن کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے۔ جو (عمل) تم ایام گزشتہ میں آگے بھیج چکے ہو اس کے سبب مزے سے کھاؤ اور پیو۔‘‘
یعنی ﴿ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ ﴾ مجھے حساب و کتاب پر یقین تھا، جس کی بنا پر میں نے وقت ضائع نہیں کیا، بلکہ حیاتِ فانی کو حیاتِ ابدی کے لیے زادِ راہ جمع کرنے کے لیے سنہری موقع تصور کیا تھا۔ ع
ہے جس کے پاس زادِ راہِ عقبیٰ بشر خوش بخت ہے وہ کامراں ہے
بہاروں سے نہ ہو مانوس عاجز بہاروں کے پسِ پردہ خزاں ہے
عزیزانِ گرامی! ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے، ہمارے والدین (سیدنا حضرت آدم اور سیدہ حواi) فردوسِ بریں ہی سے یہاں آئے تھے اور وہیں لوٹ کر گئے ہیں- ان کی اولاد کے لیے عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ اپنے کام سے فراغت اور اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے کے بعد اپنی منزل کی راہ لیں اور اپنے ہی گھر کو پلٹیں ، کیوں کہ دوسروں کے گھروں میں گھسنے والوں کو دانا نہیں کہا جاتا اور نہ ہی ان کی تکریم کی جاتی ہے۔ ع
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات