کتاب: سوئے منزل - صفحہ 28
اور یہ جملہ زبانِ زد عوام رہتا ہے کہ ’’دیکھا جائے گا۔‘‘ پیارے بہن بھائیو! کیا دیکھا جائے گا؟ جب موت آجائے گی اور قبر میں دفن کر دیا جائے گا؟ یا روزِ محشر اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا؟ تب دیکھا جائے گا یا کب دیکھا جائے؟ اور اگر کبھی نیکی کرنے کا خیال آتا بھی ہے تو دل میں یہ شیطانی وساوس پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں- ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ یعنی مسجد جانے لگوں گا تو لوگ کیا کہیں گے؟ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ڈاڑھی کو چہرے کی زینت بناؤں گا تو دوست کیا کہیں گے۔ میں دخترِ اسلام تو ہوں ، لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حکم مان کر پردہ کروں گی تو میری ماڈرن سہیلیاں کیا کہیں گی؟ الغرض یہ کیا کہے گا اور وہ کیا کہے گا؟! یعنی لوگوں کی عار و شنار نیکی کی راہ میں رکاوٹ بنی رہتی ہے اور اپنے رب کو راضی کرنے کے بجائے لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد مگر طبیعت ادھر نہیں آتی یاد رکھیے! یہ سب کہنے والے نہ موت سے بچاسکیں گے اور نہ قبر میں سا تھ جائیں گے، نہ حشر میں کام آئیں گے۔ یہ کیا کہیں گے؟ بس ہمارے مرنے پر ’’إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘ پڑ ھیں گے اور بس۔ لیکن جن لوگوں نے دنیا والوں کی عار و شنار کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے رب کو راضی کیا اور آخرت کو سنوارنے کے لیے محنت کی، ایسے ہی سعادت مند لوگوں کو قیامت کے دن کا میابی کا سر ٹیفکیٹ اور تمغۂ حسنِ کاردگی ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ فرطِ مسرت سے بے ساختہ اور برملا جس چیز کا اظہار کریں گے، وہ آخرت پر یقین ہی توہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ (19)