کتاب: سوئے منزل - صفحہ 276
جواب: بہتر تو یہی ہے کہ تدفین سے پہلے نمازِ جنازہ ادا کی جائے، بلکہ واجب ہے کہ اس حال میں نمازِ جنازہ ادا کی جائے کہ جنازہ ان کے سامنے موجود ہو، لیکن اگر کچھ لوگوں پہنچنے میں تاخیر ہو جائے اور وہ تدفین کے بعد قبرستان میں پہنچیں تو وہ میت کی قبر پر نمازِ جنازہ ادا کرسکتے ہیں ، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تدفین کے بعد قبر پر نمازِ جنازہ اداکرنا ثابت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے:
’’ ایک ایسے صحابی جن کی عیادت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جایاکرتے تھے، جب وہ رات میں وفات پاگئے تو لوگوں نے انھیں رات ہی میں دفن کر دیا، اور صبح کے وقت آپ رضی اللہ عنہما کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھیں مجھے اطلاع دینے سے کیا چیز مانع تھی؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: رات تھی اور تاریکی تھی، اس لیے ہمیں یہ مناسب نہیں لگا کہ آپ کو زحمت دیں-‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی رضی اللہ عنہ کی قبر پر تشریف لائے اور ان کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔‘‘[1]
اس حدیث پاک سے تین مسئلے ثابت ہوتے ہیں :
1 میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
2 میت کو رات میں دفن کیا جاسکتا ہے۔
3 تدفین کے بعد قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
سوال: قبرستان میں قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟
جواب: قبرستان میں قرآن خوانی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے اور ائمہ مذاہبِ اربعہ رحمہم اللہ بھی اس کے قائل نہیں ہیں-
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۵۳۰).