کتاب: سوئے منزل - صفحہ 275
لخاطر أہلہ ولیتمکنوا من زیارتہ: فیجوز‘‘ ’’جمہور فقہا کے نزدیک میت کو جائے وفات سے دوسرے ملک یا شہر کی طرف کسی غرض صحیح کے بغیر منتقل کرنا جائز نہیں ہے، مثلاً: میت جس علاقہ میں فوت ہوا ہے، اس جگہ دفن کرنے سے اس کی قبر کی بے حرمتی کا خدشہ ہو یا اس علاقے میں کسی دشمنی کی بنا پر یا کسی اور سبب سے میت کی توہین و تذلیل کا ڈر ہو تو میت کو وہاں سے کسی پر امن علاقے میں منتقل کرنا واجب ہے۔ اور اسی طرح اگر کوئی شخص پردیس میں فوت ہوجائے تواس کے اہلِ خانہ کی تالیفِ قلب کی خاطر اور اس لیے کہ وہ پردیس میں فوت ہونے والے عزیز کا آخری دیدار کر سکیں ، میت کو اس کے ملک میں منتقل کرنا جائز ہے، لیکن اس کے لیے چند شرائط کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے: 1.متوفی کی نعش ( Dead Body ) کے خراب ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ 2.منتقل کرتے وقت میت کی بے حرمتی کا ڈر نہ ہو۔‘‘ سوال: کیا کسی کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے؟ جواب: کسی مسلمان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی وفات کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازِ جنازہ غائبانہ ادا فرمائی، جیسا کہ حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر نکلے اور فرمایا: اپنے ایسے بھائی کی نمازِ جنازہ (غائبانہ) ادا کرو، جو تمھاری زمین میں فوت نہیں ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نجاشی‘‘[1] سوال: کیا قبر پر نمازِ جنازہ اداکی جا سکتی ہے؟
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۱۵۳۷).